Question:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔
میرا نام عمر ہے میں کشمیر سے ہوں۔کچھ سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔
ایک بینک کے کھاتے داروں کی مجموعی رقم 5000 کروڑ روپیے ہے۔ بینک ایک بلڈر کے ساتھ 4000 کروڑ کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ سرمایہ کاری مشارکت کے اصول پر منقعد ہوگی۔ مذکورہ صورت میں مندرجۂ ذیل سوالات کے جوابات فقۂ اقتصادیات و فقۂ معاملات کی روشنی میں دیجیے:
الف۔ کیا بینک بطور وکیل کھاتے داروں کی طرف سے مشارکت کر سکتا ہے؟
ب۔ اکثر و بیشتر کھاتے داروں نے مضاربت کھاتے کھولے ہوئے ہیں، کیا بینک ان کھاتے داروں کی رقم کو مضاربت سے بدل کر مشارکت کے طور پر استعمال کر سکتا ہے؟
ج۔ اگر بینک بطور وکیل مشارکت میں رقم لگاتا ہے تو کھاتے داروں اور بینک کے درمیان منافع کیسے تقسیم ہوں گے اور نقصان کی صورت میں نقصان کون برداشت کرے گا؟
د۔ مذکورہ صورتوں کے علاوہ اور کون سی صورت ہو سکتی ہے جس میں بینک کھاتے داروں کے مال پر بطور مشارک تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہو اور اس مال کو بلڈر کے ساتھ شراکت میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرنے کے لیے آزاد ہو، جس پر کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔ اس صورت میں بینک، بلڈر اور کھاتے داروں کے نفع اور نقصان میں حصے داری کا تعین کیجیے۔
Answer:
In the name of Allah, Most Compassionate, Most Merciful,
As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.
الجواب باسم ملہم الصواب
اولاً تمہیدی طور پر چند باتیں ذکر کی جا تی ہیں جن سے جوابات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
بینک میں جو کھاتا بطور سرمایہ کاری (investment account)کھولا جاتا ہے اس کی شرعی تکییف کی عموماً دو صورتیںہوتی ہیں:
الف۔ عقدِ مضاربت ؛ یعنیکھاتے دارکی حیثیت رب المال کی ہو اور بینک کی حیثیت مضارب کی۔ (عموماًیہی شکل اختیار کی جاتی ہے۔)
ب۔ عقدِ وکالت؛ یعنی کھاتے دار کی حیثیتمؤکِّل کی ہو اور بینک کی حیثیت وکیل کی۔ اس شکل کو “وکالہ بالاستثمار” بھی کہا جاتا ہے۔
دونوں صورتوں میں باہمی فرق
پہلی صورت مشارکت کی ایک شکل ہوگی اور دوسری صورت عقد ِ اجارہ کی ایک شکل ہوگی، جب کہ اجرت متعین کردی گئی ہو (اور ایسی صورت میں عام طور پر اجرت متعین کردی جاتی ہے)۔
اس فرق کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پہلی شکل یعنی عقد ِمضارتکی شکل میں مضارِب صرف اُس وقت اجرت کا حقدار ہو گا جب کہ مضاربت سے کچھ نفع حاصل ہو۔
اس کے برخلاف دوسری یعنی وکالت کی شکل میں وکیل اپنے کام کو انجام دینے کے بعد اجرت کا حقدار ہو گا؛ خواہ نفع ہو یا نقصان۔
دونوں صورتوں میں باہمی اتفاق
بینک کی حیثیت پہلی صورت کے اعتبار سے مضارِب کی ہو یا دوسری صورت کے اعتبار سے وکیل کی، بینک نقصان میں شریک نہیں ہو گا، نقصان صرف کھاتے دار برداشت کریں گے۔
بینک کیجانب سے تعدّی اور لاپروائی ہوئی ہو؛ کہ خلاف ضابطہو شروطکام کرنے کی وجہسے نقصان ہوا ہوتو بینک اپنی لاپروائی کے بقدر نقصان برداشت کرے گا۔
بعد ضروری تمہید جوابات ملاحظہ ہوں:
الف۔ بینک بطور وکیل کھاتے داروں کی طرف سے مشارکت کر سکتا ہے ، بشرط یہ کہ کھاتا کھولتے وقت عقد میں دو امور کو بوضاحت بیان کردیا جاۓ:
۱۔ وکیل کے ذمے کون سے کام ہوں گے جن کے انجام دہی پر وہ اجرت کا مستحق ہو گا
۲۔ حصولِ نفع پر موقوف کیے بغیر وکیل کی متعینہ اجرت
اجرت متعین کرنے کے بعد کھاتے دار کے لیے عقد میں بلا اجبار، اختیاری طور پر بینک کے لیے نفع کا کچھ حصہ مقرر کرنا جائز ہوگا؛ یعنی اگر یہ بینک کو نفع میں حصے دار نہ بنانا چاہے تو اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہ ہو؛ مثلاً سرمایہ سے کسی فیس کے طور پر کٹوتی نہ ہوتی ہو وغیرہ وغیرہ، تو ایسی صورت میں بینک کے لیے طے کردہ اجرت کے علاوہ کھاتے دار کے نفع سے متعینہ حصہ لینا بھی جائز ہوگا۔
ب۔ بینک کھاتے داروںکےسرمایےکواپنے طرف سےبغیروکالتکہ بطور مشارکت استعمال نہیں کرسکتا ؛ کیوںکہشرکۃالعقد کی بنیادی شرط ہے کہ سرمایہ کاری دونوں جانب سے ہو، جب کہ صورتِ مسؤولہ میں سرمایہ کاری صرف کھاتے داروں کی جانب سے ہے ، بینک کی جانب سے نہیں ۔
اگر بینک کا اپنا ذاتی سرمایہ ہو جسے وہ بطور شراکت لگاۓ، تو اس کے لیے کھاتے داروں کی رقم کو بطور مشارکت استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔
ج۔ اگر بینکاپنے کھاتے داروں کا وکیل ہونے کی حیثیت سے ان کا سرمایہ مشارکت میں لگاتا ہے تو :
نفع کےمستحق صرف کھاتے دار ہوں گے۔ لیکن اگر اپنے وکیل بینک کی اجرت متعین کرنے کے علاوہ کھاتے داروں نے بخوشینفع کا کچھ حصہ بھی طے کیا ہو ، تو بینک اس حصۂ نفع کا بھی حق دار ہوگا۔
نقصان صرف کھاتے دار برداشت کریں گے، الا یہ کہ بینک کی لاپروائی کی وجہ سے نقصان ہوا ہو تو بینک ہی نقصان کا ضامن ہوگا۔
د۔ صورِت مسؤولہ میں کوئی تیسری شکل ممکن نہیں ہے۔